Pages

Monday, December 12, 2011

!کبھی اے حقیقت منتظر


قدرت اللہ شہاب نے جو سب سے پہلا افسانہ لکھا اس کا نام "چندرا وتی" تھا، جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے: "جب مجھے چندرا وتی سے محبت شروع ہوئی، اسے مرے ہوۓ تیسرا روز تھا- " یہ یقیناً ایک چونکا دینے والا فقرہ ہے- اس افسانے کے پس منظر پہ قدرت اللہ نے "شہاب نامہ" میں خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے- یہ افسانہ نوجوان قدرت اللہ کی نا تمام اور نا کام محبت کے گرد گھومتا ہے-   

مجھے جوانی کی لغزشوں یا حوادث سے سرو کار نہیں- رومانوی ادب میں محبت کے موضوع پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن ایسی داستانوں میں اکثر دونوں فریق جوان ہوتے ہیں اور بہت سے لکھنے والے محبت اور ہوس میں تفریق نہیں کر پاتے- اگر شادی کو محبت  کی معراج سمجھ لیا جائے تو کیا یہ جذبہ باقی تمام عمرشوہر اور بیوی کے درمیان برقرار رہ سکتا ہے؟ محبت کیا ہوتی ہے اور یہ کب ہوس سے جدا ہو کرعشق کا روپ اختیار کر لیتی ہے؟ 

اگر میں قدرت اللہ شہاب کی طرز پہ ایک افسانہ لکھوں تو اس کی ابتدا کچھ یوں ہو گی: "جب مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی رفیقۂ حیات کے عشق میں گرفتار ہوتا جا رہا ہوں تو ہماری شادی کو بیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا"- میں اکثر سوچتا ہوں کہ مجازی عشق میں گہرائی عشق حقیقی کی محتاج ہے- جوں جوں انسان کا اس کے رب کے ساتھ تعلق گہرا ہوتا جاتا ہے، اسی  تناسب سے مجازی عشق میں ایک حیران کن عنصر داخل ہوتا جاتا ہے جسے بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں- یہ ایک کیفیت ہے جو جوانی کی محبت میں نہیں ہوتی- شاید یہ جسم و روح کا ملاپ ہے جو اپنے عروج پہ پہنچ کے بندے کو قرب الہی عطا کرتا ہے یا شاید اس فریب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ ایک حد تک قرب الہی مل چکا ہے- واللہ اعلم- 

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے؟ یہی طغیان مشتاقی

ان کیفیتوں سے آگے کی منزل کیا ہو گی؟ معلوم نہیں حقیقت ثابتہ تک رسائی میرے جیسے معمولی انسان کے لئے ممکن ہے کہ نہیں- تاہم اس امید پہ جی رہا ہوں کہ شاید حقیقت کی ایک جھلک کبھی نظر آ جائے- 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں

O much awaited Reality, let me see thee once in illusory garb
For thousands of sajdahs lie restless in my humble forehead


Search This Blog

Powered By Blogger