یوسف رضا گیلانی - جسے پاکستان کا وزیر اعظم کہتے ہوۓ سر شرم سے جھک جاتا ہے - کی حیثیت گزشتہ چار سالوں سے ایک ایسے پُتلے کی مانند ہے جو زرداری - جسے پاکستان کا صدر کہتے ہوۓ جھکا ہوا سر زمیں بوس ہو جاتا ہے - کے ہاتھوں میں ناچ رہا ہے اور اس کے ہر قابل نفرت فیصلے پہ عمل کرنے کو اپنا مقصد حیات بناۓ ہوۓ ہے- امید ہے کہ پیر ١٣ فروری کو یہ پتلا توہین عدالت کے جرم میں رسوا ہو کر وزارت عظمیٰ کے عھدے کے لئے نا اہل قرار دے دیا جائے گا اور مستقبل قریب میں اس کے لئے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ انتخابات میں "کامیاب" ہو کر پاکستان کی قومی اسمبلی میں دوبارہ نمودار ہو جائے.
بلندیوں پہ نہ آیا کبھی خیال مجھے
یہاں بھی ڈھونڈھ ہی لے گا مرا زوال مجھے
قبر کا مقدمہ
گیلانی نے اپنے آقا زرداری اور مرحوم مالکہ بینظیر بھٹو کے سیاہ کرتوتوں پہ پردہ ڈالنے کے لئے اپنی قربانی دے کر "شہید" بننے کا فیصلہ کیا ہے! گزشتہ دو سالوں سے گیلانی عدالت عالیہ کے حکم کے برعکس سوئتزرلنڈ کی عدالت کو مطلوبہ خط لکھنے سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے کیونکہ یہ اس کے آقا کا حکم تھا- زرداری جیسا چالباز شخص NRO سازش کے کیس کو "شہید بینظیر کی قبر کا مقدمہ" کہتا ہے اور وہ ببانگ دھل اعلان کر چکا ہے کہ اس کی حکومت عدالت عالیہ کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گی- زرداری نے گویا اپنے آپ کو آئین اور قانون سے بالا ہستی قرار دے دیا ہے! پاکستانی سیاست میں لفظ "شہید" کو جس بیدردی سے مسخ کیا گیا ہے اس کی مثال مشکل سے کہیں ملے گی- آج کے پاکستان میں سیاست دان قتل نہیں ہوتے، "شہید" ہوتے ہیں! اور جب غدار، وطن فروش، نااہل حکمران اپنے قبیح اعمال کی بدولت اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں تو "شہادت" کی پرچی اپنے ماتھے پہ چپکا کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں-
پچھلے دو برس کے طویل عرصے پہ محیط ، حکومت اور عدلیہ کی جنگ کے دوران مجھے یوں لگ رہا تھا کہ عدلیہ اپنی ہار مان کے خاموشی اختیار کر لے گی:
پیچ ایسا ہے پتنگوں کا کوئی کٹتی نہیں
ڈور کا اب تو سرا ہاتھوں سے نکلا جائے ہے
مجھے خوشی ہے کہ افتخار محمد چودہری صاحب کے ہاتھ سے ڈور کا سرا نِکَلنے سے پہلے ہی گیلانی کی پتنگ کٹنے والی ہے-
خیرات کے لئے پھیلے ہوۓ ہاتھ
زرداری اور گیلانی کی غداریوں اور وطن فروشیوں کا حال آپ اسی بلاگ میں یہاں اور یہاں پڑھ سکتے ہیں- NRO کے متعلق آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں- آیندہ چند دنوں میں غالباً ان دونوں کی بداعمالیوں کی حکایات سے اخبارات بھرے ہوں گے- یہاں میں ان کے خیرات کے لئے پھیلے ہوۓ ہاتھوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں-
پاکستان میں زلزلہ آے، سیلاب آے یا امریکہ کی جارحیت کے رد عمل میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا طوفان آے، یہ دونوں گداگر اپنا اپنا کشکول اٹھائے دنیا سے بھیک مانگنے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں- ان کی اس گدا گری کی عادت سے وطن عزیز کی ناک کٹ جاتی ہے لیکن بھیک کے انبار دیکھ کر یہ فقیر پھولے نہیں سماتے- بعد میں اس بھیک کے متعلق بہت کم معلومات قوم کو دی جاتی ہیں-
قرضوں کا جال
بھیک کے علاوہ غیر ملکی قرضوں ["امداد"] کی اپنی الگ دردناک کہانی ہے- ہمارے امرا اور جاگیردار براۓ نام ٹکس ادا کرتے ہیں- زرداری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ارب پتی ایک پیسا ٹکس کا نہیں دیتا- گیلانی کی دولت کے مینار سنا ہے پچھلے چار سالوں میں تعمیر ہوۓ ہیں لیکن ان پہ ٹکس محض چند ہزار روپے سالانہ ہے- حکومت کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ [IMF] سے جی بھر کے قرضے لئے جاتے ہیں- ایک حالیہ خبر یہ ہے کہ زرداری/گیلانی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں اتنے ہی قرضے حاصل کے ہیں جتنے ماضی میں تمام پاکستانی حکومتوں نے لئے تھے- ان قرضوں کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس کے متعلق مکمل تفصیلات دستیاب نہیں- کہتے ہیں کہ ایک اچھی خاصی رقم حکمرانوں - جن میں شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں - کی جیبوں سے ہوتی ہوئ ان کے غیر ملکی کھاتوں میں منتقل ہو جاتی ہے- ان قرضوں کی ادایگی کے لئے IMF کی انسانیت سوز شرایط پہ عمل کیا جاتا ہے- عام استعمال کی اشیا پہ ٹکس بڑھا دیا جاتا ہے اور گیس، بجلی، تیل، پانی کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں- ان بیرونی قرضوں کے جال میں پھنسے ہوۓ غریب عوام کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے-
طلوع سحر
جس طرح طلوع سحر سے پہلے تاریکی بہت گہری ہوتی ہے، شاید پاکستان کی تاریک رات بھی ایک شفاف اور امید افزا صبح میں بدلنے والی ہے- خیال ہے کہ عام انتخابات اسی سال ہوں گے- یہ پاکستانی قوم کے لئے ایک سنہری موقع ہے اپنے بد باطن سازشی حکمرانوں (اور حزب اختلاف کی شکل میں رال ٹپکاتے ہوۓ سابق حکمرانوں) سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا جو جی بھر کے عوام اور قومی خزانے کو لوٹ چکے ہیں اور غیر ملکی حکومتوں سے وطن کی عزت اور آزادی کا سودا کرتے رہتے ہیں- پاکستان کو ایک ایماندار، خود دار، انصاف پسند اور جرات مند حکومت کی ضرورت ہے- اگر ہم نے ہوشمندی سے کام لیتے ہوۓ زرداری، گیلانی، اسفندیار، شریفوں، چودھریوں وغیرہ سے نجات حاصل کر لی تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی-
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی
اگر ہم نے بد کردار، جرائم کے مرتکب لوگوں کو دوبارہ ووٹ دے کر کامیاب کر دیا تو ہم اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی ماریں گے-
آندھیو جاؤ اب کرو آرام
ہم خود اپنا دیا بجھا بیٹھے