Pages

Tuesday, November 12, 2019

فسادی مارچ اور فتنہ دھرنا

پاکستان میں آج کل ایک مذہبی سیاستدان بنام فضل الرحمان آئینی حکومت گرانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے- اس کا فسادی مارچ (جسے وہ "آزادی مارچ" کہتا ہے) 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہوا اور سندھ و پنجاب سے گزرتا ہوا 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچا- تب سے وہاں ایک "فتنہ دھرنا" قائم ہے جہاں کئی ہزار مرد (جن میں اکثر بلوچستان اور پختونخواہ کے مدارس کے طلبا ہیں)  براجمان ہیں- خیال ہے کہ ان کی تعداد لگ بھگ 30 ہزار ہے جس میں ڈنڈا برداروں کے دستے بھی شامل ہیں- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس بارودی اسلحہ اور مہلک ہتھیار بھی ہیں - اس فوج ظفر موج کی خوراک اور دیکھ بھال پہ روزانہ کروڑوں روپے اٹھ جاتے ہیں- ایک اہم سوال یہ ہے کہ     
پانی کی طرح جو پیسہ بہایا جا رہا ہے اس کا منبع کہاں ہے؟

فضل کی اصلیت عظیم صحافی جولین اسانج کے سائبر خانے "وکی لیکس" میں بے نقاب ہو چکی ہے- بقول وکی لیکس جب فضل امریکی سفیر این پٹرسن کے سامنے گڑ گڑا چکا تو این نے اپنے صدر کو واشنگٹن میں پیغام بھیجا: "فضل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی پارلیمان میں اس کے ووٹ فروخت کے لئے    

حاضر ہیں"! وکی لیکس کے انکشافات کا ذکر میں اپنے ایک گزشتہ بلاگ میں کر       چکا ہوں جو آپ نیچے دیا ہوا رابطہ دبا کر  پڑھ سکتے ہیں


آئینی حکومت کو گرانے کی کوششوں میں حزب اختلاف کی علاقائی جماعتوں کے علاوہ دونوں بڑی ملک گیر جماعتیں بھی شامل ہیں- سزا یافتہ مجرم نواز شریف، جس کے پاس اپنی پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں، اپنے بستر علالت سے احکامات جاری کرتا ہے اور پارٹی کے عہدے دار بلا چوں و چرا سر تسلیم خم کر کے فضل کے ساتھ آئینی حکومت گرانے کی سازشوں میں مصروف ہو جاتے ہیں- اسی طرح "عوام کی پارٹی" کا کرتا دھرتا بلاول بھٹو بھی حکومت گرانے میں فضل کے ساتھ کھڑا ہے-- اس وقت پاکستان کی "جمہوریت" کے متعفن جوہڑ میں بے ضمیر اور بے حس لوگ کس امید پر ڈبکیاں لگا رہے ہیں؟

پاکستانی صحافت میں ایسے لوگ جن کو حالات کی نزاکت کا صحیح اندازہ ہو شائد ایک ہاتھ کی انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں- بہت سے صحافی پاکستان کے دشمنوں سے اپنے قلم کا سودا کر چکے ہیں- ایسے کم علم صحافیوں کی بھی کمی نہیں جو اتنی بڑی سازش کو پاکستان کی اندرونی سیاست کہہ کر اپنے بے معنی  "تجزیوں" سے صفحے سیاہ کرتے ہیں 

عالمی حالات 


پاکستان کے متعلق بات کرنے سے پہلے کچھ دوسرے اسلامی ملکوں پہ ایک نگاہ ڈال کے ہم بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں- عراق، لیبیا اور شام پہ تباہی نازل ہونے کی بنیادی وجہ ان ممالک کی خود مختار حکمت عملی تھی جس سے امریکی  (یاصیہونی) مالی نظام اور اقتصادی قوت پہ ضرب پڑتی تھی- صدام حسین، قذافی اور بشار الاسد، تینوں ڈالری نظام کے    قید خانے سے نکل کے سونے پہ مبنی سکہ رائج کرنے کے خواہشمند تھے- اس گستاخی کی سزا بہت عبرت ناک تھی- عراق اور لیبیا تباہ ہو چکے ہیں اور صدام و قذافی موت کی آغوش میں جا سوۓ ہیں- صرف بشار زندہ بچا ہے جو اپنے    وطن کو امریکیوں/اسرئیلیوں اور ان کے خونخوار داعش دہشتگردوں کی گرفت سے آزاد کرانے کے لئے روس اور ایران کی مدد سے لڑ رہا ہے- ان  تین ممالک سے قبل امریکی "سوپر پاور" نے تونس اور مصر میں "عرب بہار" کی ہوائیں بھیج کر ابن علی اور حسنی مبارک سے چھٹکارا حاصل کر لیا تھا- اب وہاں امریکہ کی فرمانبردار حکومتیں ہیں اور امریکہ/اسرائیل مطمئن ہیں- جن اسلامی ممالک نے امریکہ/اسرائیل کے    سامنے گھٹنے ٹیک کے تابعداری کی زنجیر گلے میں ڈال لی وہ بچ گئے:سعودی عرب، متحدہ امارات، قطر وغیرہ 


اب پاکستان کی باری ہے ؟


عمران خان ملک میں غربت کا خاتمہ کر کے ایک با عزت اور خوشحال معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے- اس کے لئے چین/پاکستان اقتصادی راہداری کی کلیدی اہمیت ہے- یہ راہداری چین کے عالمگیر منصوبے کی اہم ترین کڑی ہے جس کی تکمیل سے چین  اقتصادی لحاظ سے امریکہ سے بہت آگے جا سکتا ہے- پاکستان کے لئے بھی اقتصادی ترقی کے امکانات بہت روشن ہیں-




گزشتہ ستمبر عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر جو تقریر کی تھی اس نے امریکہ/اسرئیل اور انکے حلیف بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں- اس تقریر میں عمران نے جرات و بیباکی سے "غریب" ممالک کی دولت خود غرض حکمرانوں کے توسط سے امیر ممالک میں منتقل ہونے کی روداد بیان کی تھی- اس دولت کا باہر جانے کے بعد واپس آنا محال ہو جاتا ہے جب کہ پاکستان کے مالی جرائم کے مرتکب لوگوں کو مغرب میں پناہ دے دی جاتی ہے- ان ممالک کی اخلاقی اقدار کا پول عمران نے ان کی اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کا ذکر کر کے کھول دیا تھا- آخر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کا تفصیل سے تذکرہ کر کے عمران نے بھارت کی مکاری اور درندگی سے ساری دنیا کو آگاہ کر دیا-

عین اس وقت جب امریکہ و اسرائیل سعودی عرب کو اسلامی ملک ایران کے خلاف جنگ پہ ابھار رہے تھے عمران نے ایران اور سعودی کے دورے کر کے ان میں صلح کرانے کی کوشش کی اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا-

 مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پہ ان تین ممالک (اور ان کے حلیفوں) کے لئے عمران ایک ناپسندیدہ شخصیت  بن چکا ہے جسے راہ سے ہٹانا ضروری ہے- اس کے لئے انہوں نے ایک ماہر شاطر کی طرح پاکستان کی بساط پہ اپنے مہروں کو حرکت دینی شروع کر دی ہے- ایک اہم مہرہ وہ خود غرض، بے ضمیر اور لالچی شخص ہے جو دارالحکومت میں دھرنا  دیئے ہوۓ ہے- دوسرا اتنا ہی اہم مہرہ سزا یافتہ مجرم نواز کا ہے جس کی "علالت" کے جال میں عمران کو پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے- ایک اور مہرہ سابق صدر زرداری کا ہے جس پر ملک کی دولت لوٹ کر امیر ملکوں میں منتقل کرنے کے الزامات ہیں- وہ بھی سخت بیمار ہے اور "ظالم" عمران کی دہائی دے رہا ہے- 

ان تین بڑےمہروں کے علاوہ چھوٹے مہروں کی شکل میں پاکستانی غدار سیاست، صحافت، تجارت، نوکر شاہی نظام اور حکومت میں پھیلے ہوۓ ہیں- ان میں سے اکثر کے پاس امریکی یا برطانوی شہریت ہے! افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک محدود حد تک ایسے گندے انڈے عدلیہ اور افواج پاکستان میں بھی موجود ہیں (بعض کو سزائیں ہو چکی ہیں)- ان سب ضمیر فروشوں کی ہمت افزائی اور مالی مدد کے لئے پاکستان کے دشمنوں کے ڈھیروں "غیر ریاستی ادارے" اور "انسانی حقوق" کی انجمنیں سر زمین پاکستان میں پھیلے ہوۓ ہیں- ان اداروں کی  سرپرست "امدادی" اور "فلاحی" تنظیمیں ہیں جن کی کڑیاں غیر ملکی سفارت خانوں، "تھنک ٹینکوں" اور براہ راست غیر ملکی حکومتوں اور ان کے خفیہ اداروں سے جا ملتی ہیں:  "امریکی ایڈ"، "قومی انڈاؤمنٹ براہ جمہوریت"، "فریڈم ہاؤس" اوراسی قماش کے اور ادارے جو کھرب پتی جارج سوروس کی "اوپن سوسائٹی" کے تحت چلتے ہیں-

پاکستانی حکومت نے بھارتی سفارت خانے کا عملہ کم کر دیا ہے جو ایک مثبت قدم ہے- اسی طرح امریکی سفارت خانے پہ بندشیں لگانے کی ضرورت ہے اور "غیر ریاستی اداروں" کو اگر قابو میں نہیں رکھا جا سکتا تو انہیں بند کرنا بہتر ہے- رہے عمران کے ارد گرد اغیار کے ایجنٹ تو ان کی نشان دہی "آئی ایس آئی" (یہ ہماری ذہنی غلامی ہے کہ ہم اپنی زبان میں اپنے اداروں کے نام نہیں رکھ سکتے!) کا کام ہے- عمران کے پاس پارلیمان میں اکثریت نہیں اور وہ بیساکھیوں کے سہارے اپنی حکومت چلا رہا ہے، جسے ناکام ثابت کرنے میں حکومت میں شامل غدار بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں-

آگے کیا ہو گا ؟


وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران کو قوت کے مراکز اور قوت کے استعمال کا ادراک ہوتا جا رہا ہے- کرتارپور راہداری کے کھلنے سے ممکن ہے کشمیر پہ بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف پاکستان کو سکھوں کی اخلاقی امداد مل جائے- اگر افواج پاکستان عمران کی پشت پہ کھڑی رہیں اور حکومت کے ساتھ مل کے پاکستان کے دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنا دیا تو پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے- عمران کو اسی جرات اور بیباکی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے جو اس نے اقوام متحدہ میں دکھائی تھیں- پاکستانی غداروں کا قلع قمع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کو ملنے والی مالی امداد کا خاتمہ کر دیا جاۓ اور دشمن ممالک کے سفارت خانوں پہ پابندیاں لگائی جائیں-


No comments:

Search This Blog

Powered By Blogger