آجکل پاکستان میں خصوصاً اور دنیاۓ اسلام میں عموما، مسلمانوں کے نام نہاد مذہبی پیشوا خود ساختہ اعزازی ناموں سے پہچانے جاتے ہیں: مولانا، ملا، مولوی، امام، شیخ وغیرہ- بحیثیت مجموعی یہ حضرات - کہ خواتین ان میں نہیں ہوتیں - اپنے تئیں "علما" کہلوانا پسند کرتے ہیں اور اپنے نظریات سے اختلاف رکھنے والوں پہ کفر کا فتویٰ صادر کرنے کے لئے ہمہ وقت کمر کسے بیٹھے ہوتے ہیں
اگرچہ ان حضرات نے اپنے لئے قرآن سے "عالم " کی اصطلاح اخذ کر لی ہے لیکن قرآن خود "علما " کی تعریف کن الفاظ میں کرتا ہے؟ سوره فاطر (35)، آیات 27/28 ، ترجمہ: ڈاکٹر شبیر احمد
کیا تم نے غور نہیں کیا الله بلند فضا سے ایک ہی جیسا پانی برساتا ہے اور پھر اس سے کتنے مختلف رنگوں اور خواص کے پھل پیدا کرتا ہے؟ اور پہاڑ جو ایک ہی مادے سے بنتے ہیں ان میں مختلف رنگوں کے قطعات ہوتے ہیں، کوئی سفید، کوئی سرخ اورکوئی کالا
اور پھر انسانوں، ہر طرح کے چھوٹے بڑے جانداروں اور چوپایوں کی بھی مختلف خصوصیات اور رنگ ہوتے ہیں- کائنات کی اس رنگا رنگی پر غور کر کے وہی لوگ الله کی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہیں جو اس کے بندوں میں صاحب علم ہیں- وہ جانتے ہیں کہ الله کتنی بڑی قوتوں کا مالک
ہے جوکائنات کے اس کارخانے کو تخریب سے محفوظ رکھتا ہے
شبیر صاحب کا تبصرہ: ان دو آیات پہ غور کیجئے، کتنے بہت سے سائنسی علوم کی طرف اشارہ کر کے لفظ "علما " آیا ہے- ان آیات میں علم موسمیات، حیوانیات، حشرات الارض، مویشیوں اورعلم خوراک وغیرہ کا ذکر ہے- اگر علما سے مراد مذہبی پیشوایّت لی جائے تو وہ تو محض کچھ رسمی عبادات آپ کو سکھا سکتے ہیں
No comments:
Post a Comment